۱۲ آذر ۱۴۰۳ |۳۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Dec 2, 2024
خطبه فدکیه

حوزہ/جناب فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت، عظمت، کمالات اور کردار کی تحقیق و مطالعہ ہر فرد کے لیے ضروری ہے اسی طرح جناب فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی ملکیت 'فدک' کی حقیقت جاننا بھی فرض ہے اور اسے بھی اسی طرح نشر و اشاعت کرنا ہے جس طرح سے کربلا اور عید غدیر کے پیغام کو عام کرنا ہے، کیونکہ یہ ملکیت کا معاملہ رحمت اللعالمین کی بیٹی، امیر المؤمنین کی شریک حیات اور حسنین کریمین کی مادر گرامی کا ہے۔

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ نیوز ایجنسی| جناب فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت، عظمت، کمالات اور کردار کی تحقیق و مطالعہ ہر فرد کے لیے ضروری ہے اسی طرح جناب فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی ملکیت 'فدک' کی حقیقت جاننا بھی فرض ہے اور اسے بھی اسی طرح نشر و اشاعت کرنا ہے جس طرح سے کربلا اور عید غدیر کے پیغام کو عام کرنا ہے، کیونکہ یہ ملکیت کا معاملہ رحمت اللعالمین کی بیٹی، امیر المؤمنین کی شریک حیات اور حسنین کریمین کی مادر گرامی کا ہے۔

فدک کا پس منظر: 'فدک' خیبر کے نزدیک ایک نہایت زرخیز قریہ کا نام ہے جو مدینہ سے 140 کیلو میٹر کے فاصلہ پر واقع تھا۔ خیبر وہ مقام ہے جس جگہ پر مشہور جنگ، جنگ خیبر اردو کیلنڈر کے مطابق سات (7) ہجری اور انگریزی کیلنڈر کے اعداد وشمار کے مطابق 628 عیسوی میں ہویٔ۔ فدک کے باغات نہایت پُر ثمر اور بے حساب دولت و ثروت کے حصول کے ذریعہ تھے۔

فدک 7 ہجری تک یہود کی ملکیت تھا لیکن اس کے بعد ارض اسلامی قرار پایا۔

فتح خیبر کے بعد پیغمبر اسلام کو خبر ملی کہ فدک کے یہودی معاہدہ کی خلاف ورزی پر آمادہ ہیں تو پیغمبر اسلام نے جنگ کا اعلان کر دیا تو رعب و دبدبہ اور ہیبت و جلالت کی بنا پر یہودیوں نے صلح پیشکش کی اور اس کے عوض کے طور پر فدک آپ کی خدمت میں پیش کیا۔

اس مقام پر یہ واضح کرنا لازمی ہے کہ فدک نہ تو جنگ و جہاد کے ذریعہ فتح ہوئی ہو اور نہ ہی اس پر بسنے والوں نے اسلام قبول کیا ہو بلکہ غیر مسلموں نے صلح اور جاں بخشی کی خاطر ایسی زمین مسلمانوں کے حوالے کر دی ہو تو اس قسم کی زمین حکومت اسلامی کے سربراہ کی ملکیت ہوگی اور اس سربراہ حکومت کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ اسے جس طرح چاہے استعمال کرے۔

فدک ملکیت میں کیسے آیا اس کی وضاحت ضروری تھی۔ فدک چونکہ اسی قسم کی زمین تھی اس بنا پر یہ خاص رسول اکرم کی ملکیت تھا جو سنی اور شیعہ کے مطابق سورہ بنی اسراءیل کی آیت مبارکہ نمبر 26 کے نزول کے بعد آنحضرت نے حضرت فاطمہ الزہرا (س) کو بخش دیا۔ (کشف الغمہ، جلد 2, صفحہ 152; در منثور تالیف جلال الدین سیوطی، جلد 4, صفحہ 177)

بخشش فدک کو مربوط کرنے کے لیے اہل سنت کے منابع سے معروف صحابی ابو سعید خدری سے ایک حدیث منقول ہے کہ اعلیٰ رسول اللّٰہ فاطمہ فدکا۔ "جب یہ آیت نازل ہوئی کہ وات ذاالقربیٰ حقہ" تو رسول نے فدک فاطمہ۴ کو دے دیا۔ (کتاب میزان اعتدال، جلد، 2, صفحہ 288 اور کنزل العمال، جلد 2, صفحہ 158 نقل از تفسیر نمونہ جلد، 13, صفحہ 104)

یہ امر مسلم ہے کہ فدک فاطمہ۴ اور ان کے بعد اولاد فاطمہ کی ملکیت تھا اور اسے ان سے چھین لینا ایک قبیح اور ناجائز فعل ہے اور صد افسوس کہ بعد وفات رسول حکومت اسلامی کے کارپروازں نے فدک کو دختر رسول سے چھین لیا۔

بعد وفات رسول اکرم سقیفہ کی کاروائی کے بعد حزب حاکم نے اہل بیت نبوت کے ایک اور حق کے غصب کی جانب قدم بڑھایا اور فدک کو سرکاری ملکیت کا اعلان کر دیا اس پر سے فاطمہ الزہرا۴ کے مزار عین سے بے دخل کر دیا۔ فاطمہ الزہرا۴ نے اس غصب کے خلاف صداۓ احتجاج بلند کی۔ آپ۴ کی ملکیت تھی پھر بھی خلیفہ وقت نے آیت تطہیر کی مصداق خاتون جنت سے گواہ طلب کیے۔ جب فاطمہ۴ نے ام ایمن رضی اللّٰہ اور حضرت علی۴ کو گواہ کے طور پر پیش کیا تو خلیفہ نے ان گواہوں کو قبول نہ کیا اور اپنے موقف کے حق میں ایک ایسی حدیث پیش کی جس کے راوی بھی تنہا خود ہی تھے اور کہنے لگے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا ہے کہ "ہم کوئی وراثت نہیں چھوڑتے ہم جو چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہے۔"

حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اس لیے نہیں بخشی تھی کہ فاطمہ۴ اور ان کی اولادیں آساںٔش کی زندگی بسر کرے بلکہ بعد رسول حضرت علی علیہ السلام کی خلافت مستحکم، اقتصادی بنیاد پر استوار ہو اور علی۴ اس مال و دولت کے ذریعہ غرباء و مساکین کی داد رسی کر سکیں اور آپ کی قیادت و رہبری کو تقویت حاصل ہو۔

خلیفہ صاحب فدک کی اقتصادی اور سیاسی اہمیت سے واقفیت رکھتے تھے ا ور اس نظریے کے پیش نظر چھین لیا کہ حضرت علی۴ اس مال ودولت سے استفادہ نہ کرسکیں لہزا فدک چھین لیا۔ مسٔلہ فدک میں آپ۴ کی جد وجہد کسی مادی طمع و لالچ کی بنا پر نہ تھی، بلکہ اس کے ذریعہ آپ۴ حزب حاکم کی بدعنوانیوں کا پردہ چاک کر رہے تھے اور بے نقاب کرنا مقصد تھا۔

یہ تحریر کرنا فرض بنتا ہے کہ 1400سال قبل عامۃ المسلمین نہ ہی خلیفتہ المسلمین کی صلاحیت و اہلیت پر نظر رکھتے تھے اور نہ ہی نا اہل حکمران کی وجہ سے دین اساس و بنیاد اور شریعت کے اصولوں اور امت اسلامی کو لاحق خطرات سے آگاہ تھے آپ اگر آج کے حالات کا معایٔنہ اور تجزیہ کریں، 1400 سال گزرنے کے باوجود عوام الناس کی ذہنیت میں کوئی فرق واقع نہیں ہؤا ہے اور آج کے دور میں بھی افراد امت ایسے ہی لوگوں سے اپنی فلاح و صلاح اور شریعت اسلامی کے نفاذ و رواج کی امیدیں باندھے ہوئے ہیں جن کا نہ شریعت سے کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی یہ لوگ عوام کی فلاح و بہبود سے کوئی دلچسپی رکھتے ہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .